پولیو اپ ڈیٹ - اسلام آباد، 15 مارچ، 2024

پاکستان میں سال 2024 کا دوسرا پولیو کیس بلوچستان کے ضلع چمن سے رپورٹ ہوا ہے۔

قومی ادارہ صحت میں قائم پولیو لیبارٹری کے مطابق متاثرہ بچے میں معذوری کی علامات 29 فروری کو ظاہر ہوئیں اور بچے سے لیے گئے نمونوں میں پائے گئے پولیو وائرس کا تعلق سرحد پار کے وائرس کلسٹر وائے بی تھری اے سے ہے۔

گزشتہ 4 سالوں میں ضلع چمن سے پہلا پولیو کیس رپورٹ ہوا ہے جبکہ سال 2024ء کا پہلا کیس 14 مارچ کو بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے رپورٹ ہوا ہے۔

پولیو وائرس آپ کے علاقے میں موجود ہے جو کہ ملک بھر میں بچوں کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے کیونکہ اس سال اب تک 25 سے زائد اضلاع کے 56 ماحولیاتی نمونوں میں اور گزشتہ سال 100 سے زائد سیوریج کے نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔

یہ وائرس خاص طور پر ان بچوں پر حملہ آور ہوتا ہے جو نہ صرف غزائی قلت کا شکار ہیں بلکہ پولیو سمیت دیگر موذی امراض کی بروقت ویکسینیشن نہ کروانے کی وجہ سے ان کا قوت مدافعت کا نظام کمزور ہے۔

پاکستان پولیو پروگرام والدین، دیکھ بھال کرنے والے افراد، مذہبی رہنماؤں، اساتذہ کرام، کمیونٹی کے عمائدین اور معاشرے کے تمام طبقات سے درخواست کرتا ہے کہ و ہ اس خوفناک بیماری سے بچاؤ کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے ارد گرد رہنے والے پانچ سال سے کم عمر بچوں کو ہر انسدادِ پولیو مہم کے دوران پولیو سے بچاؤ کے قطرے لازمی پلائے جائیں۔

پاکستان پولیو پروگرام کی جانب سے سال 2024ء میں دو ملک گیر پولیو مہمات کا انعقاد کیا گیا ہے جن میں چار کروڑ سے زائد بچوں کو پولیو ویکسین دی گئی ہے۔ حالیہ پولیو کیسز کے پیش نظر 25 مارچ سے ضلع چمن سمیت تمام متاثرہ اضلاع میں پولیو مہم کا انعقاد کر رہے ہیں جس میں 60 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔

نوٹ برائے ایڈیٹر:

پولیو ایک لاعلاج بیماری ہے جس سے پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ اس وائرس سے بچے عمر بھر کے لیے معذور ہو سکتے ہیں، حتیٰ کہ کچھ کیسز میں بچوں کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو اس موذی مرض سے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوا کر بچایا جا سکتا ہے، اور وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ متعدد بار پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے دنیا کے تمام ممالک پولیو سے پاک ہو چکے ہیں، جبکہ پاکستان اور افغانستان وہ واحد ممالک رہ گئے ہیں جہاں پولیو اب بھی بچوں کے لیے خطرہ ہے۔ انسداد پولیو مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔