اسلام آباد، 11 فروری 2024  –   بلوچستان کے ضلع سبی اور خیبر پختونخوا کے ضلع پشاور میں ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

قومی ادارہ صحت میں قائم انسداد پولیو لیبارٹری کے مطابق 15 جنوری کو سبی سے لیے گئے سیوریج کے پانی کے نمونے اور 22 جنوری کو پشاور سے لیے گئے نمونے میں پولیو وائرس ملا ہے جس کا تعلق سرحد پار کے پولیو وائرس کلسٹر وائے بی تھری اے سے ہے۔

وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان نے کہا ہے کہ ماحولیاتی نمونوں میں مسلسل اس وائرس کا ملنا تشویش کی بات ہے اور پاکستان پولیو پروگرام نے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

ڈاکٹر ندیم جان نے کہا: ’جنوری میں رواں سال کی پہلی پولیو مہم کے بعد اب ہم 26 فروری  سے دوسری ملک گیر پولیو مہم کا انعقاد کر رہے ہیں تاکہ پانچ سال سے کم عمر کے 4.5کروڑ سے زائد بچوں کو اس وائرس سے تحفظ فراہم کر سکیں۔‘

وفاقی سیکریٹری صحت افتخار علی شلوانی نے کہا کہ پولیو وائرس ایک موقع پرست وائرس ہے جو سرحد کے کسی بھی پار بچوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’اس موذی بیماری سے بچوں کو بچانا ہمارا سماجی فریضہ ہے۔ اس بات کو سمجھیں کہ ویکسین سے انکار آپ کے بچوں کو عمر بھر کی معذوری کے خطرے سے دوچار کر رہا ہے۔ جب بھی اپنے دروازے پر پولیو ویکسنیٹر کی دستک سنیں، اپنا دروازہ کھولیں اور بچوں کو لازمی ویکسین پلوائیں۔‘

انسداد پوپلیو کے لیے قائم نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر شہزاد بیگ نے کہا کہ ماحولیاتی نمونوں میں وائرس کی موجودگی کی وجہ سے فروری میں رواں سال کی دوسری ملک گیر پولیو مہم منعقد کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا: ’پولیو سے بچاؤ کے قطرے اس بیماری سے سب سے موثر تحفظ فراہم کرتے ہیں، اس لیے ہم 2024 میں متعدد مہمات کا انعقاد کر رہے ہیں تاکہ ملک میں پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو ویکسین کی متعدد خوراکیں مل سکیں۔‘

پاکستان میں 2024  میں اب تک کوئی پولیو کیس رپورٹ نہیں ہوا تاہم 30 ماحولیاتی نمونے مثبت رپورٹ ہو چکے ہیں۔

نوٹ برائے ایڈیٹر:

پولیو ایک لاعلاج بیماری ہے جس سے پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ اس وائرس سے بچے عمر بھر کے لیے معذور ہو سکتے ہیں، حتیٰ کہ کچھ کیسز میں بچوں کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو اس موذی مرض سے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوا کر بچایا جا سکتا ہے، اور وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ متعدد بار پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے دنیا کے تمام ممالک پولیو سے پاک ہو چکے ہیں، جبکہ پاکستان اور افغانستان وہ واحد ممالک رہ گئے ہیں جہاں پولیو اب بھی بچوں کے لیے خطرہ ہے۔ انسداد پولیو مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔

مزید معلومات کے لیے رابطہ کریں:

آمنہ سرور، کمیونیکیشنز آفیسر، این ای او سی، +923125190383