اسلام آباد، 13 جنوری 2024 – ملک کے تین شہروں سے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے، جس کے بعد ملک میں گذشتہ سال رپورٹ ہونے والے مثبت نمونوں کی تعداد 115 ہوگئی ہے۔

قومی ادارہ صحت میں قائم انسداد پولیو لیب کے مطابق روالپنڈی سے 11 دسمبر کو لیے گئے سیوریج کے پانی کے نمونے، اسلام آباد سے 12  دسمبر کو لیے گئے نمونے اور کراچی شرقی سے 13 دسمبر کو لیے گئے نمونے میں پولیو وائرس پایا گیا۔

لیب کے مطابق تمام نمونوں میں ملنے والے وائرس کا تعلق سرحد پار والے وائے بی تھری اے وائرس سے ہے۔

وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان نے کہا کہ پاکستان پولیو پروگرام دنیا کا وسیع اور حساس ترین پولیو سرویلنس نظام چلا رہا ہے جو پولیو وائرس کا فوری سراخ لگانے میں مددگار رہا ہے، تاہم وائرس کا ماحول میں موجود ہونا ملک بھر میں بچوں کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’یہ موقع پرست وائرس ہے جو بچوں، خاص طور پر پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے اور عمر بھر کی معذوری پیدا کر سکتا ہے۔‘

وزیر صحت نے کہا کہ بڑے پیمانے پر انسداد پولیو مہمات کا مقصد ملک میں تمام بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلا کر انہیں اس موذی مرض سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ ’اس لیے میں تمام والدین سے درخواست کرتا ہوں کہ بیماری کے خطرے کو سمجھیں اور اپنے بچوں کو متعدد بار پولیو ویکسین ضرور پلوائیں۔‘

نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر شہزاد بیگ نے کہا کہ 2023 میں اب تک 115 مثبت ماحولیاتی نمونوں میں سے 95 فیصد نمونوں میں وائے بی تھری اے وائرس پایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وائرس کی تصدیق کے بعد پولیو پروگرام نے متعدد پولیو مہمات کا انعقاد کیا ہے اور نئے سال کے لیے بھی جامع حکمت عملی بنائی ہوئی ہے۔ ’جنوری آٹھ سے ہم سال کی پہلی ملک گیر پولیو مہم کا انعقاد کر رہے ہیں جس میں پانچ سال سے کم عمر کے چار کروڑ سے زائد بچوں کو پولیو ویکسین دی جائے گی۔‘

نوٹ برائے ایڈیٹر:

پولیو ایک لاعلاج بیماری ہے جس سے پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ اس وائرس سے بچے عمر بھر کے لیے معذور ہو سکتے ہیں، حتیٰ کہ کچھ کیسز میں بچوں کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو اس موذی مرض سے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوا کر بچایا جا سکتا ہے، اور وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ متعدد بار پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے دنیا کے تمام ممالک پولیو سے پاک ہو چکے ہیں، جبکہ پاکستان اور افغانستان وہ واحد ممالک رہ گئے ہیں جہاں پولیو اب بھی بچوں کے لیے خطرہ ہے۔ انسداد پولیو مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔

مزید معلومات کے لیے رابطہ کریں:

آمنہ سرور، کمیونیکیشنز آفیسر، این ای او سی، +923125190383