sambreen on a mission to save the future generations of pakistan 1

 

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور گنجان آبادی والا شہر ہے۔ اس شہر کو ’’منی پاکستان‘‘ بھی کہتے ہیں۔ پاکستان بھر سے روزگار کی طلب میں لوگ اس شہر کا رخ کرتے ہیں اور کم بجٹ میں اپنا گزر بسر کرکے اپنا گھر آباد کرتے ہیں۔ انہی آبادیوں میں ایک آبادی پہلوان گوٹھ ہے جہاں پر خیبرپختونخوا سے بہت سے لوگ آباد ہوتے ہیں۔ اس علاقے میں اکثر پولیو وائرس پایا جاتا ہے۔

پہلوان گوٹھ میں کچی آبادی اور شہری آبادی دونوں ہے۔ تین سے چار منزلہ عمارتوں کے ساتھ کچی آبادی بھی آباد ہے۔ اس آبادی میں کھلے نالے بہہ رہے ہیں۔ گائے، بھینسیں چر رہی ہوتی ہیں۔

25 سالہ ثمرین اس علاقے کی پولیو ایریا سپروائزر ہیں جو چار کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کی سربراہی کرتی ہیں۔

 

 

sambreen on a mission to save the future generations of pakistan 2

 

’’میں نے پولیو پروگرام میں چار سال قبل کام شروع کیا تھا اور میں یہ بات بخوشی کہتی ہوں کہ ہم بہت کام کر چکے ہیں۔ میں یہاں پر بڑی ہوئی ہوں جس کی وجہ سے مجھے کام میں بہت آسانی ہوتی ہے۔ لوگ میری بات سنتے ہیں خصوصی طور پر خواتین میری بات غور سے سنتی ہیں اور میں بہت سے بچوں کے ناموں کو جانتی ہوں‘‘۔

پہلوان گوٹھ میں چند سال قبل ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم تھا جس کی وجہ سے پولیو ورکرز کو کام کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ خوش قسمتی سے حالیہ برسوں میں سیکیورٹی میں بہتری آئی ہے جس سے پولیو پروگرام نے علاقے میں ویکسینیشن کو یقینی بنانے کیلئے کمیونٹی ہیلتھ ورکرز بھرتی کئےہیں۔

پہلوان گوٹھ میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 32 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اپریل 2019ء میں تقریباً تین ہزار بچوں کے والدین نے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے انکار کردیا تھا تاہم ثمرین جیسی محنتی سپروائزر کی انتھک جدوجہد سے 80 فیصد انکاری والدین کو مطمئن کرنے کے بعد اپنے بچوں کو قطرے پلوانے پر آمادہ کیا جا چکا ہے۔

ثمرین نے بتایا کہ’’ میں جس علاقے کو دیکھتی ہوں اس میں 210 گھرانے ہیں جس میں 196 بچے ہیں۔ اس علاقے میں 2019ء میں 50 سے زائد بچوں کے خاندانوں نے بچوں کو قطرے پلوانے سے انکار کردیا تھا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اعتماد کی بحالی میں وقت لگتا ہے۔ ہم مسلسل ان خاندانوں سے رابطے میں رہتے ہیں ان کے گھروں میں جاتے ہیں، ان کے خدشات سنتے ہیں اور ویکسین کی افادیت سے آگاہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج 50 میں سے 8 انکاری والدین رہ چکے ہیں۔ آگے ہونے والی مہمات کے دوران انکاری والدین کی تعداد کو زیرو پر لانے کی کوشش کی جائے گی۔

 

sambreen on a mission to save the future generations of pakistan 3

 

اس دوران صرف انکاری والدین کو اپنے بچوں کو پولیو قطرے پلوانے پر آمادہ کیا جاتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ اس بات کی پوری کوشش کی جاتی ہے کہ والدین کو ویکسین کی افادیت سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ نہ صرف پولیو بلکہ دوسرے موذی امراض سے بچاؤ کے ٹیکے بھی اپنے بچوں کو لگوائیں‘‘۔

ان گھروں میں جا کر ان کی کوششیں بارآور ثابت ہوتی ہیں۔ ایک خاندان جس میں تین بچوں کو ویکسین پلانا تھا اور وہ کئی ماہ سے انکاری تھے ثمرین کے جانے سے والدین اپنے بچوں کو قطرے پلانے پر آمادہ ہوئے۔

یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، ثمرین کے ساتھ مقامی سطح پر کام کرنے والے سوشل موبلائزر اور مقامی مذہبی علماء نے بھی شرکت کی۔ جنہوں نے والدین کو ویکسین کی افادیت پر آمادہ کیا اور مولانا محمد حنیف نے اس بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھی اس علاقے کے رہائشی ہیں اور ہم ایک ہی زبان میں بات چیت کرتے ہیں۔ آپ کا تعلق اس طبقے سے ہو تو ایسے میں والدین کو آمادہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

 

sambreen on a mission to save the future generations of pakistan 4

 

مولانا نے مزید کہا کہ بعض اوقات ایک منفی ویڈیو یا منفی خبر آپ کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے تاہم مجھے خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ نیک کام کرنے کی توفیق عطا کی ہے اور میں بھی بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے مشن کا حصہ ہوں۔ ثمرین کے ساتھ سکولوں اور گھروں کے دروازے پر جاتا ہوں اور ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کہ قوم کے مستقبل کو اس موذی مرض سے بچایا جاسکے۔

کراچی میں ثمرین جیسے بہت سے لوگ ہیں جو پاکستان کو پولیو سے پاک بنانے کے مشن کا حصہ ہیں۔ دنیا میں پاکستان اور افغانستان دو ممالک ہیں جہاں پر پولیو وائرس ابھی بھی موجود ہے۔ ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کیلئے بھرپور کوششیں ہورہی ہیں تاہم ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کیلئے ابھی بھی بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے۔