تحریر: واصف محمود
یو - سی 29، لاہور— زندہ دلانِ شہر 'لاہور' کا قدیم حصہ اور یونین کونسل 29 کا ایک گنجان آباد علاقہ، دن کے 2 بج رہے ہیں اور موسمِ سرما کی یخبستہ سہ پہر شروع ہونے کو ہے۔ رفعت، ایک کمیونٹی موبلائزر گلی میں کھڑی بچوں کے اپنے گھروں کو لوٹنے کا انتطار کر رہی ہیں۔ جلد ہی وہ کیا دیکھتی ہیں کہ بچے سکول کے بستے اور لنچ باکس اٹھائے اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے ہیں، وہ جلدی سے کندھے پر لٹکائے اپنے نیلے رنگ کے ویکسین ڈبے کو سنبھالتے ہوئے گتے/کلپ بورڈ پر سفید کاغذ لگاتی ہیں۔ جیسے ہی بچے ان کے قریب پہنچنا شروع ہوتے ہیں، رفعت اپنی آواز کو بڑھاتے ہوئے بڑے پیار سے اور چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے پوچھتی ہیں: بچو! کیا آپ نے سکول میں پولیو کے قطرے پی لیے تھے؟" دن بھر کھیل کُود اور پڑھائی سے تھکے ہارے ان بچوں میں صرف ایک بچے کے علاوہ زیادہ تر ہاں میں سر ہلا کر جواب دیتے ہیں۔
کچھ بنیادی سوالات پوچھنے کے بعد، رفعت کندھے پر لٹکائے نیلے رنگ کے ڈبے سے ویکسین کی شیشی نکالتی ہیں اور بچے کو پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پلاتی ہیں۔ بچہ پولیو سے بچاؤ کے دو حفاظتی قطرے پینے کے بعد اچھلتا کُودتا اپنے گھر کی جانب چلنا شروع کر دیتا ہے جہاں دروازے کے پیچھے کھڑی ماں اپنے بچے کے لوٹنے کا انتطار کر رہی ہے۔
رفعت جو کہ چار بچوں کی ماں ہے، انہوں نے سال 2015ء کے دوران صوبہ پنجاب میں جاری پولیو مہم میں اس وقت شمولیت اختیار کی جب پولیو سے بچاؤ کی مہمات کے دوران حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ جانے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد کی نشاندہی نے پولیو ٹیموں اور پروگرام انتطامیہ کو پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔
تاریخی بادشاہی مسجد کے عقب میں واقع لاہور شہر کا یہ قدیم حصہ بازارِ حسن کے نام سے مشہور ہے جسکی تاریخی ثقافت اور یہاں بسنے والے افراد کے رہن سہن اور طرزِ زندگی کو عوامی و علاقائی حلقوں میں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جاتا۔ یہ علاقہ ہر قسم کی بنیادی ضرورتِ زندگی پر مشتمل اشیاء کی خرید و فروخت کے علاوہ خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء کے حوالے سے انتہائی شہرت کا حامل ہے۔ صدیوں پہلے تعمیر کردہ ان تنگ اور ٹیڑھی تاریخی گلیوں میں آنے والے افراد کی ضروریات اور تفریح کے پیش نظر یہاں رات بھر دکانیں کھلی رہتی ہیں۔ علاوہ ازیں اس علاقے میں بسنے والے مقامی افراد رات بھر جاگنے کو ترجیح دیتے ہیں اور صبح اس وقت سونے کے لیے بستر میں جاتے ہیں جب تمام بچے سکول جا چکے ہوتے ہیں۔
رفعت کا کہنا ہے، " لاہور شہر کے اس قدیم حصے کی اپنی روایات ہے لہذا ہم یہاں بسنے والے مقامی افراد کی ضروریات اور طبیعت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عمومی طور پر شام کے وقت میں لوگوں کے گھروں کا رخ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں"۔
ان کا مزید کہنا تھا، "ابتدائی طور پر یہاں کے مقامی لوگ شام میں مجھے گھر سے نکلتا دیکھ کر حیرانگی کا اظہار کرتے تھے لیکن پھر میں نے انہیں یہ وضاحت پیش کی کہ پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پینے سے بار بار محروم رہ جانے والے بچوں کی وجہ سے علاقے میں اس موذی وائرس کی افزائش کے خدشات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ نکاسی آب کے لیے کھلی نالیاں اور موذی وائرس کے حوالے سے خطرناک قرار دیے گئے اضلاع سے افراد کی اس علاقے میں مسلسل نقل و حمل کی وجہ سے بھی یہاں بسنے والے بچوں کو یہ موضی مرض لاحق ہونے کے خدشات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
وفاقی حکومت کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے پولیو وائرس کی ممکنہ موجودگی کے حوالے سے انتہائی تشویشناک قرار دیے گئے اضلاع ترین گنجان آبادی کے ایک بڑے حصے میں موزی امراض سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکوں کے عمل میں دانستہ اور غیر دانستہ کوتاہیوں اور یہاں کی آبادی پر مشتمل افراد کی مذکورہ علاقے (یونین کونسل 29) میں مسلسل نقل و حمل نے پولیو کے مکمل تدارک کے لیے جار ی جدوجہد کی راہ میں مزید مشکلات پیدا کردی ہیں
پولیو ٹیمیں گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پلانے میں روزانہ کئی کئی گھنٹے صرف کرتی ہیں تاکہ بچوں میں ویکسینیشن کے عمل کو یقینی بناتے ہوئے آئندہ نسل کو اس موذی وائرس سے مکمل تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ بلاشبہ اتنی بڑی آبادی میں مختلف قومیت، نسل اور لسانی ڈھانچوں میں تقسیم معاشرے میں ایسے افراد کی نشاندہی ایک مشکل عمل ہے جو پولیو کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ جانے کی وجہ سے آئندہ نسلوں کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
بچوں کی نگہداشت پر معمور افراد بشمول والدین کی عدم توجگی کی وجہ سے پانچ روزہ پولیو مہم کے دوران بچوں کی ایک بڑی تعداد پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ جاتی ہے۔
مذکورہ یونین کونسل میں بطور میڈکل آفیسر اپنی خدمات سرانجام دینے والے عرفان شفیع کا کہنا ہے، " پچھلی مرتبہ پانچ روز پولیو مہم کے اختتام پر 50 فیصد کے قریب ایسے بچے ہمیں ملے تھے جو پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ گئے تھے۔ پولیو ٹیمیں باقاعدگی کے ساتھ ان بچوں کے گھروں پر جا کر دروازے پر دستک دیتیں لیکن مقصد حاصل کیے بغیر انہیں خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑتا"۔
عرفان شفیع کا مزید کہنا تھا، "رفعت (کمیونٹی موبلائزر) نے ان گھروں پر شام کے اوقات میں دستک دینا کیا شروع کی، سارے کا سارا منظرنامہ ہی تبدیل ہو گیا۔ وہ بچوں کی نگہداشت پر مامور افراد یا والدین کی آسانی کے لیے مشاورت کے ساتھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پلانے کے وقت کا انتخاب کرتیں۔ اس یونین کونسل میں اب یہ معمول بن چکا ہے کہ پولیو کی ٹیمیں بچوں کے سکول سے لوٹنے کے بعد ہی ان تک دروازے پر دستک دیتی ہیں اس طرح رفعت بی بی بھی انہیں گاہے بگاہے رہنمائی فراہم کرتی رہتی ہیں"۔
میڈیکل آفیسر برائے یونین کونسل 29، عرفان شفیع نے یہ مشاہدہ کی اہے کہ ، "پولیو مہمات کے دوران بچوں کو اس موضی مرض سے بچاؤ کے حفاطتی قطرے پلانے کی شرح اب 100 فیصد ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ رفعت بی بی پانچ روزہ پولیو مہم کے اختتام کے باوجود پولیو ویکسینیشن کا عمل اس وقت تک جاری رکھتی ہیں جب تک وہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہ جانے والے آخری بچے کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے کا عمل یقینی نہ بنا لیں"۔
زندہ دلانِ شہر لاہور میں 42 کے قریب کمیونٹی موبلائزر ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کو یقینی بنانے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ بچوں، والدین اور بچوں کی نگہداشت پر مامور افراد کو صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی میں تعاون فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے مقررہ درست عمر کے حامل موذی امراض سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پینے کے قابل بچوں پر مشتمل دائرہ کار وسیع کرنے میں بھی مدد فراہم کی ہے تاکہ ویکسین سے متروکہ امراض بشمول پولیو جیسے مرض سے بچوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
لاہور شہر کو نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان بھر میں پولیو کے خلاف جاری جدوجہد میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ یہ روزگار کے مواقعوں، آبادکاری اور مستقل سکونت کے حوالے سے لوگوں کی پسندیدہ ترین منازل میں سے ایک تصور کی جاتی ہے۔
لاہور شہر کا رخ کرنے والے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے اوسط 50 ہزار سے زائد بچوں کو ہر مہم کے دوران پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پلائے جاتے ہیں۔ جبکہ راولپنڈی شہر کا رخ کرنے والی فیملیوں کے اوسط 70 ہزار کے قریب بچوں کو ہر پولیو مہم کے دوران حفاظتی قطرے پلائے جاتے ہیں۔ اس طرح پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پینے والے بچوں کی تعداد کے حوالے سے لاہور دوسرے نمبر پر آتا ہے۔
جنوری 2018ء میں لاہور کے علاقے آؤٹ فال روڈ سے ماحولیاتی نمونہ جات حاصل کر کے ان پر تشخیص کا عمل شروع کیا گیا۔ حتمی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہاں اس علاقے کے ماحول میں ممکنہ طور پر پولیو کے موذی وائرس کے اثرات موجود ہیں جس کی وجہ سے اس شہر میں رہنے والے بچوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ پنجاب ایمرجنسی اپریشنز سینٹر کے کوارڈینیٹر، ڈاکٹر منیر احمد نے ایک انتباہی پیغام میں خبردار کیا ہے کہ " جب پولیو وائرس کی ممکنہ افزائش کے ٹھوس شواہد موجود ہوں تو ایسی صورت میں ہر وہ بچہ جو پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہا ہو وہ کسی بھی وقت اس موذی وائرس کے حملے کا شکار ہو سکتا ہے۔ حکومت کسی بھی صورت میں اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ کوئی ایک بھی بچہ پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ جائے"۔
پاکستان میں جاری پولیو کے خاتمے کا پروگرام ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد بڑی کامیابی سے اپنے حتمی ہدف کی جانب رواں دواں ہے تاکہ ایک ایسے محفوظ مستقبل کی تعمیر کو یقینی بنایا جا سکے جس میں آئندہ ہمارے ملک کے بچے، خاندان یا کمیونٹی کے کسی بھی فرد کو کبھی بھی پولیو کے موذی مرض کا خطرہ لاحق نہ ہو۔ پاکستان میں جاری پولیو تدارک پروگرام کے تحت انتہائی محتاط انداز میں اکھٹے کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق 2014ء کی مخدوش صورتحال کی نسبت گذشتہ سال 2017ء کے اختتام تک پولیو کیسز کی تعداد میں 97 فیصد کی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ گذشتہ چار سالوں کے دوران 2014ء میں پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد 306 کی بلند ترین سطح پر تھی، 2015ء میں یہ تعداد کم ہو کر 54، 2016ء میں 20 جبکہ گذشتہ سال 2017ء کے اختتام تک پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد صرف 8 ریکارڈ کی گئی جو کہ انتہائی خوش آئند ہے۔
رفعت اپنے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے بتاتی ہیں، "میرے ہمسائے میں لاہور کا وہ قدیم علاقہ واقع ہے جہاں کے لوگ انتہائی ملنسار ہیں لہذا میں بھی یہاں کے مقامی افراد کے بچوں کا برابری کی سطح پر دل سے خیال رکھتی ہوں۔ یاد رہے کہ یہ علاقہ پولیو وائرس کی ممکنہ موجودگی کے باعث تشویشناک قرار دیا جا چکا ہے۔ میں ایک صحت محافظ ہوں، کیا آپ بھی؟"۔