نومبر2016۔۔۔ڈیرہ غازی خان: جنو بی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے اس دور دراز گائوں میں پولیو کے خلاف قومی مہم کا آج دوسرا روز ہے۔ پولیو ٹیمیں بچوں کی ویکسینیشن کے سلسلے میں گھر گھر جا رہی ہیں لیکن گائوں کی اکثر خواتین کے لیے یہ پیسے بنانے کے دن ہیں جو اپنی بچوں کو ساتھ لے کر کپاس چننےکے لیے کھییتوں کا رخ کر چکی ہیں

علاقے میں کام کر رہی صحت کی ٹیم جو پہلے ہی کام کے بوجھ تلے دبی جا رہی ہے اور جسے ایک دن میں اوسطَ 200 گھروں سمیت سکولوں کا دروازہ کھٹکھٹانا ہوتا ہے، اس کے لیے کپاس کی چنائی کا آغاز ایک نیا چیلنج لیے کھڑا ہے کیونکہ بچے اپنی گھروں پر دستیاب نہیں ہیں  

دور دور کھڑے گھروں اور مشکل راستوں کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان شہر سے 16 کلومیٹر دور گائوں درخاست جمال خان، پولیو ٹیموں کی طرف سے بہت زیادہ کوششوں کا تقا ضا کرتا ہے  

ضلع ڈیرہ غازی خان کا شمار صوبہ پنجاب کے دور دراز علاقوں میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی افسوسناک حد تک کم ہے۔ ماضی قریب میں یہاں سے پولیو کیسز سامنے آتے رہے ہیں اور ایسا ہی ایک آخری کیس 2014ء میں منظرِ عام پر آیا، لیکن عمومی پولیو مخالف مہم کبھی بھی 25 فیصد سے زیادہ لوگوں تک نہیں پہنچ سکی  

ڈیرہ غازی خان کے پڑوس میں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے پولیو زدہ اضلاع ہیں جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب کا یہ ضلع پولیو کے نشانے پر ہے۔ اس ضلع کو پولیو کے شکار علاقوں کی درجہ بندی میں درجہ دوئم پر رکھا گیا ہے۔ درجہ اول میں فاٹا، خیبر پختونخواہ، سندھ اور بلوچستان کے اضلاع شامل ہیں  

ٹیم لیڈر رفیق احمد کہتے ہیں"کپاس کی چنائی کا موسم ہمار ے لیے ایک بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے"، ان کا کہنا ہے کہ بستی سیکر بگالانی میں کوئی دروازہ بھی کھٹکھٹایئں تو مکان خالی ملتا ہےاور ایسا ایک مرتبہ نہیں ہوا  

ہماری ٹیم شام میں دوبارہ جاتی ہے لیکن کچھ بچے ابھی بھی گھر پر نہیں ملیں گے۔ بچوں کی تلاش اور ویکسینیشن کا سلسلہ دنوں جاری رہتا ہے اور اس وقت تک نہیں رکتا جب تک آخری بچہ اس مہم سے مستفید نہ ہوجائے، رفیق کا مزید کہنا ہے۔ 

گھروں میں بچوں کی ویکسینیشن کے بعد پولیو ٹیموں کا کام ختم نہیں ہوجاتا کپاس کی چنائی کا موسم ان کے لیے مزید مشکلات لیے کھٹرا ہے۔ کچھ بچے روزی کی تلاش میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ پولیو زدہ علاقوں کی طرف نکلے ہوئے ہیں۔ ایسے بچوں کا شمار اپنی نقل و حرکت اور ویکسین کی مدد سے قابلِ مدافعت بیماریوں، جیسا کہ پولیو کے خطرے کی وجہ سے بڑے خطرات کا سامنا کرنے والی آبادی میں ہوتا ہے۔ اور ایسے بچوں تک پہنچنےکے لیے پولیو ٹیموں کے پاس علیحدہ سے پلان ہے ۔ پولیو ورکر محمد اختر جو بستی احمدانی میں موجود ہیں کہتے ہیں"ہم کوشش کرتے ہیں کہ ایسے بچوں کو ویکسینیشن کے لیے پولیو مہم کے پہلے روز ہی پہنچا جائے ۔ ایسے بچے جو اپنی جگہ پر نہیں ملتے انہیں ہم سرخ نشان والے نقشوں میں ظاہر کرتے ہیں"، اختر مزید کہتے ہیں کہ ایسے بچے بہت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر بچوں کی نشونما بھی صحیح طریقوں سے نہیں ہوتی جبکہ ان کے لیے تعلیمی مواقع بھی محدود ہیں۔ 

رفیق اور اس جیسے34000دیگر ہیلتھ ورکرز کے لیے پنجاب کے 36 اضلاع میں کام کرنا کسی طور پر بھی آسان نہیں ہے۔ جو بچے تین روزہ مہم میں دو دن کی انتھک جدوجہد کے باوجود قابو میں نہیں آتے ان کے لیے توسیع شدہ پروگرام مزید 14روز جاری رہتا ہے۔ 

گذشتہ سال پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں 80فیصد تک کی کمی آئی ہے اور یہ تعداد بتدریج مزید کم ہورہی ہے۔ لیکن پولیو وائرس ابھی بھی غیر محفوظ بچوں کے لیے خطرہ ہے  

ٹیم لیڈر رفیق کہتے ہیں"ہم بچوں کو ڈھونڈتے ہیں اور حفاظتی ٹیکوں کی عدم فراہمی کےبارے میں جاننے کے بعد انکو پولیو سے بچائو کے قطرے پلاتے ہیں، ہم ان کے لیے یہی کر سکتے ہیں۔ ہم بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے ایک مقدس کام میں لگے ہوئے ہیں۔