اپنی کاندھے پر پولیو ویکسین سے بھری شیشیوں کا باکس ڈالے ایک گلی میں اترتی ہیں اور ہر دروازے پر دستک دیتی ہیں۔ ان کی حفاظت پر مامور ایک پولیس اہلکار بھی ان کے ہمراہ ہے۔ وہ شمال مغربی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع پشاور میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی ذمہ داری پر مامور ہیں۔ فر ح دیبا یہ فرض گذشتہ سولہ سالوں سے انتہائی ایمانداری اور تندہی سے سرانجام دے رہی ہیں۔ فر ح کہتی ہیں کہ انکی مسلسل کوششوں کی وجہ سے اس علاقے میں گذشتہ کئی سالوں سے پولیو کا کوئی ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا

یہ کام آسان نہیں ہے ۔ فرح اور انکے گھر والوں کو پولیو مخالف مہم میں حصہ لینے کی وجہ سے کئی مرتبہ نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا رہا ہے ۔ انکے خاندان والوں کا خیال ہے کہ اپنی سلامتی کے لیے فرح کو یہ کام چھوڑ دینا چاہیے لیکن انہوں نے کسی بھی دھمکی کو اپنی ذمہ داری کے آڑے نہیں آنے دیا۔ وہ کہتی ہیں، "کسی نہ کسی کو تو یہ کام کرنا ہے ۔ میرے خیال میں میرا کردار بہت اہم ہے۔ اگر فیلڈ ورکرز گھر گھر نہیں جائیں گے تو پاکستان سے اس بیماری کا تدارک کیسے ممکن ہوگا۔"

جب پولیو کے خاتمے کے لیے مختلف حکومتیں، مالی امداد کے ادارے اور بین الاقوامی شراکتی تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں تو فرح جیسی نڈر اور جراتمند پولیو ورکرز کی خدمات کے بغیر مثبت نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ عملہ کے مقامی اراکین ہی ایسے افراد کی شاندہی با آسانی کر سکتے ہیں جنہیں پولیو سے بچائو کی ویکسین کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مرد و خواتین رضاکار جو کہ پُر خطر حالات میں بھی اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں، انکے پیشِ نظر صرف ایک مقصد ہے کہ کسی طرح اس بات کو یقینی بنایا جا ئے کہ انکے اضلاع میں موجود بچے پولیو وائرس کا آسان ہدف نہ ہوں۔

ہیلتھ ورکر محمد ارشد جو کہ کینٹ ریلوے اسٹیشن کراچی پر بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے والی ٹیموں کے انچارج ہیں، کے لیے پہلی ترجیح وہ بچے ہیں جن کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی ہے ۔وہ یہ بتاتے ہو ئے فخر محسوس کرتے ہیں کہ قطر ے پلانے والے پولیو ورکرز کی کارکردگی وہ پہلے خود جانچتے ہیں تا کہ ایک بھی بچہ اس مہم سے فائدہ اٹھا ئے بغیر نہ رہ جائے۔

فرح کی طرح انہیں بھی اکثر و بیشتر دھمکی آمیز پیغامات کا سامنا رہتا ہے لیکن کوئی بھی چیز انہیں اپنے مقصد سے دور نہیں کر سکتی۔ کیونکہ ان کی نظر میں یہ انسانی جذبہ سے سرشار ایک اخلاقی فریضہ ہے ۔

محتاط اعدادو شما ر کے مطابق ، قومی سطح پر پاکستان میں صرف ایک فیصد والدین ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو پولیوسے بچائو کے قطر ے پلوانے سے انکاری ہیں ۔ ان میں سے تو کچھ کم علمی کی وجہ سے ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں جبکہ باقی ماندہ کی جانب سے پولیو ٹیم کو براہ راست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سخت مزاجی کی بنیادی وجہ یا تو تعلیم کی کمی کہی جا سکتی ہے یا پھر ان افراد کا صحت کے شعبے میں حکومتی اقدامات پرعدم اعتماد بھی ایک بڑ ی وجہ ہو سکتی ہے۔ بلا شبہ یہ رحجان حکومت کی جانب سے مہیا کی جانے والی صحت کی سہولیات میں فقدان کے باعث مشکلات کا سامنا کرنے والی برادریوں میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔

ان تمام مسائل کا حل صرف اور صرف زرا سی توجہ اور رابطہ کاری کے مربوط نظام میں پوشیدہ ہے۔

20 سالہ سجاد علی جو کہ ایک طالب علم بھی ہیں ، ان ہزار لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے مقامی جرگہ کی ایک نشست کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ پولیو کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کریں گے۔ دینی تعلیمات کے حصول کو جاری رکھتے ہوئے،علی لاہور کے مختلف علاقوں میں گھر گھر جا کر خاندان اور برادری کی سطح پر پولیو کے قطروں کی مہم کے حوالے سے جاری ممکنہ مزاحمت کو کم کر نے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ پاکستان میں پولیو وائرس سے متاثرہ 80 فیصد بچے پشتو بول چال والے علاقوں سے سامنے آتے ہیں۔ پولیو ورکرزکے حوالے سے جارحانہ رویہ رکھنے والوں کی سوچ تبدیل کرنے میں علی جیسے کارکن کے لیے جرگہ کی افادیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ کمیونیکیشن سپورٹ آفیسر نعیمہ خان وضاحت کر تے ہوئے کہتی ہیں کہ جرگے کی وجہ سے ہمیں پولیو وائرس کے خطرات سے دوچار برادریوں کے بہت قریب رہ کے کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اب پشتون چاہے بزرگ ہوں یا نوجوان سبھی پولیو ویکسین سی محروم رہ جانے والے بچوں کی نشاندہی میں ہماری مدد کر رہے ہیں ۔ پشتون لڑکے پولیو ورکرز کے ساتھ اُن قریبی آبادیوں میں جاتے ہیں جہاں بسنے والے افراد مذہنی بنیادوں پر پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں یا رابطوں میں فقدان کے باعث، اپنے بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے سے محروم رکھتے ہیں ۔

ان تینوں جرات مند پاکستانی شہریوں فرح، محمد اور علی کا پولیو مہم میں کردار ایک ہیرو کا ہے ۔ اپنے اس یقین اور اعتقاد کی پاداش میں کہ کوئی بچہ پولیو سے بچائو کے قطر ے پیینے سے محروم نہ رہ جائے، یہ لوگ تھکن کی پرواہ کیے بغیر لوگوں میں بیداری پیدا کر نے اور ہر آتے جاتے کو قائل کرنے کے لیے کام کرتے ہیں ۔

یہ سارا کام ان کے لیے اس وجہ سے ممکن ہے کہ وہ یہاں کے مقامی ہیں اور ان انسانیت دوست فرائض کی انجام دہی میں فخر محسوس کر تے ہیں۔

علی فخریہ طور پر یہ کہتے ہیں کہ ایسی بہت سی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر پشتون قوم اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلاوانے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن یہ سارے تحفظات ان کے ساتھ بیٹھ کر ایک کپ چائے پینے کے دوران دور ہوجاتے ہیں ۔