صوبائی دارلخلافہ لاہور کے مکینوں کی پولیو مہم میں بھرپور تعاون کی یقین دہانی

 

واصف محمود

محلہ شفیق آباد—لاہور—01اپریل2016— حال ہی میں قائم شدہ نئے حفاظتی مرکز صحت جو کہ زندہ دلان شہر لاہور کے ایک گنجان آباد علاقے کی یونین کونسل نمبر 69 میں واقع ہے، جہاں والدین کے ہمراہ آئے بچوں کی ایک بڑی تعداد جن میں چند اپنی معصومانہ بڑبڑاہٹ جبکہ باقی شاید گرمی کے باعث گلا پھاڑ پھاڑ کے رو رہے ہیں، وہیں ان کے درمیان موجود ایک لیڈی ہیلتھ ورکربچوں کو مخلتف بیماریوں سےبچائو کے لیےحفاظتی ٹیکوں اور پولیو کے قطروں کی فراہمی میں مسلسل مصروف عمل ہے۔

"میرے لیے اگرچہ اپنے بچے کو ٹیکہ لگنے سے ہونے والی درر کا مشاہدہ کرنا انتہائی دشوار گزار عمل ہوتا ہے تاہم مجھے اس بات کا بھی بڑی اچھی طرح ادراک ہے کہ یہ حفاظتی ٹیکے میرے بچے کو مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ عارضی درد مستقبل میں کسی بڑی آفت یا ناقابل برداشت تکلیف کے مقابلے میں رائی کے دانہ برابر ہے"۔ یہ کہنا ہے ایک شیرخوار بچے عبدالرحمن کی والدہ کا جو اسے یہاں مرکز صحت میں ویکسینیشن کی تیسری خوراک دلانے لائی ہیں۔

یہ مرکز صحت علاقے کے مقامی لوگوں کے تعاون سے قائم کیا گیا ہے تا کہ یونین کونسل 69 جو کہ پولیو وائرس کی ممکنہ موجودگی کے باعث حساس قرار دی جا چکی ہے وہاں کوئی ایک بچہ بھی پولیو کے حفاظتی قطرے پینے سے محرومم نہ رہ جائے۔

مزکورہ علاقے کو پولیو وائرس کی ممکنہ موجودگی کا سبب بننے والی جن وجوہات کی بنا پر حساس قرار دیا گیا ہے ان میں نکاسی آب کا غیر مناسب انتظام، پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی، ماضی میں سامنے آنے والے پولیو کیسز کا ریکارڈ متاثرہ اضلاع سے نقل مکانی کرنے والی آبادی کی ایک بڑی تعداد اور پولیو سے بچائو کے لیے حفاظتی قطروں کے عمل میں سست روی شامل ہیں۔

یہ شاید اس علاقے یعنی یونین کونسل 69کی بد قسمتی ہے کہ درج بالا تمام عوامل یہاں یکجا طور پر گذشتہ ایک عرصہ سے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ لاہور-اسلام آباد موٹروے کے آغاز پر واقع کراچی کے بعد پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کے علاقے بند روڈ کی یہ یونین کونسل پچھلی کئی دہائیوں سے صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے ۔

64ہزار کی آبادی پر مشتمل اس علاقے میں 10ہزار کے قریب رہائش پذیر بچوں کی عمریں 5 سال سے کم جب کہ تین ہزار بچے وہ بچے مقیم ہیں جن کی عمریں 2 سال سے کم ہیں ۔ اس علاقے میں 2ہزار سے زائد ایسے بچے موجود ہیں جو کہ پولیو سے متاثرہ اضلاع میں اکثر سفر کرتے رہتے ہیں جس کے باعث ان بچوں میں پولیو سے متاثر ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ علاوہ ازیں پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی، تعلیم کی کمی اور حفظان صحت کے بنیادی اصولوں کی عدم موجودگی بھی پولیو وائرس کی مذکورہ علاقے میں ممکنہ افزائش کے دیگر عوامل میں سے چند ایک قرار دی جا رہی ہیں۔  

"ہم اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ میرا سب سے بڑا بیٹا علی جس کی عمر اب چار سال ہے وہ ابھی تک سکول جانے سے محروم ہے۔ وہ صرف قریب ہی واقع ایک تربیتی مرکز میں لکھنے پڑھنے کی ابتدائی تربیت حاصل کر رہا ہے"۔ یہ بتانا ہے شیر خوار بچے اعجاز کی والدہ کا۔                                                                           

"سالوں پہلے ہمارا خاندان افغانستان سے صوبہ خیبر پختونخواہ کے صدر مقام پشاور سے یہاں پنجاب میں ہجرت کر گئے تھے"۔ اعجاز کی والدہ کا مزید کہنا تھا۔

میرے شوہر ایک مزدور ہیں اور ان کی روزانہ کی آمدن مبلغ -/500 روپے ہے۔ اس قلیل آمدن میں انکے لیے بچوں کو سکول بھیجنا حتیٰ کہ ہسپتال جو کہ ہمارے گھر سے دوری پر واقع ہے وہاں بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کے لیے لیجانا بھی ممکن نہیں"، بچے کی والدہ بتاتی ہیں۔

یہ مرکز صحت ہماری رسائی میں ہے۔ ہمیں بچوں کے ساتھ ٹریفک سے پر ہجوم کشادہ سڑکوں کو پار نہیں کرنا پڑتا جو کہ عموماَ ٹریفک حادثات کا پیش خیمہ ہوتی ہیں"۔ تین بچوں کی والدہ کا بتانا ہے۔

یونیسیف کے تعاون سے کمیونٹی کی سطح پر قائم کمیونیکیشن نیٹ ورک کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذیلی ادارے سوشل موبلائزیشن فورس اور مقامی لوگوں کی مشترکہ کاوشوں سے یہ مرکز صحت کا قیام عمل میں آیا ہے۔ مختصر گفت وشنید کے بعد یونین کونسل 69 کے ایک بااثر رکن ایک کشادہ کمرہ مختص کرنے پر رضامند ہو گئے جو کہ اب بڑی کامیابی کے ساتھ شراکتی بنیادوں پر بطور مرکز صحت زیر استعمال ہے جو کہ انفرادی قوت سمیت مختلف اشیاء ضروریہ جیسے حکومت کی جانب سے ویکسین اسٹوریج کے لیے فراہم کردہ فریج، بجلی کے اخراجات کمیونٹی مشترکہ طور پر برداشت کرتی ہے اور علاقے کے لوگوں میں مرکز صحت کی افادیت کے حوالے سے آگاہی پولیو تدارک کے شراکتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔

مزید براں دوعد د ویکسینیٹرز کی دستیابی کے حوالے سے صوبائی حکومت کے انیدہ خالد کو پولیو ویکسینیشن مہم کے دوران مرکز صحت میں بطور سربراہ تعینات کیا ہے۔ مرکز صحت میں اس بات کی یقین دہانی کی گئی ہے کہ پولیو کی قومی مہم کے آغاز کے دنوں میں جب تمام ویکسینیٹرز اپنے فرایض کی انجام دہی میں مصروف ہوں، تب بھی بچوں کی معمول کی ویکسییشن کا عمل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ مس خالد ایک تربیت یافتہ لیڈی ہیلتھ وزیٹر ہیں جنھوں نے نا صرف  دوسالہ ویکسینیشن کا تربیتی کورس بڑی کامیابی سے مکمل کیا ہے بلکہ وہ شعبہ صحت میں اپنی خدمات کے 26 سالہ تجربہ کی بھی حامل ہیں۔

"یہ ایک نئی جگہ ہے اور علاقے کے لوگ اس جگہ سے کچھ زیادہ آشنا نہیں ہیں۔ لہذا ہم والدین کی آگاہی کے لیے مساجد میں اعلانات اور سوشل موبلائزیشن جیسے طریقوں سے مقامی لوگوں کی مدد کرتے ہیں"۔ مس خالد کا کہنا ہے۔

سوشل موبلائزر اور خاتون کمیونٹی موبلائزرز گھر گھر جا کر والدین کو مرکز صحت میں بچوں کو بروقت پولیو کے قطرے مفت پلانے کی ترغیب میں اہم کردار ادا کرتی ہیں"۔ لیڈی ہیلتھ ورکر کا کچھ ایسا بتانا تھا۔

پولیو تدارک کے اشتراکی ادارے بشمول یونیسیف نے حکومت کے اس لازوال تعاون سے لاہور میں 42 کے قریب خاتون کمیونٹی موبلائزرز صرف لاہور میں تعینات کی ہیں جن میں سے 27 یونین کونسل 69 میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

خاتون کمیونٹی موبلائزرز علاقے میں موجود ایسے تمام بچوں کی فہرستیں تیار کرتی ہیں جنہیں مختلف بیماریوں سے بچائو کی ویکسین کسی بھی وجہ سے فراہم نہیں کی گئی اور کمیونٹی کے افراد کو مرکز صحت کی جگہ، ویکسینیشن کے دن، تاریخ اور وقت کے بارے میں آگاہ رکھتی ہیں۔ جو کہ بچوں کی نشاندہی کے حوالے سے مرکز صحت کے سربراہ سے رابطے میں رہتی ہیں تاکہ کمیونٹی کے بچوں کی صحت کی حفا ظت یقینی بنانے کے لیے انہیں ویکسینیشن فراہم کی جا سکے۔

"زیادہ تر والدین بچوں کو معمول کی حفاظتی ویکسینیشن کے اوقات کار سے لاعلم ہوتے ہیں۔ ہم انہیں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو ویکسینیشن کی بروقت فراہمی میں کوتاہی سے اجتناب کریں کیونکہ یہ وہ واحد طریقہ ہے جس سے وہ اپنے بچوں کو ایک محفوظ اور صحت مند مستقبل فراہم کر سکتے ہیں"۔ خاتون کمیونٹی موبلائزر نازین کا کہنا ہے۔ حکومت کے مظبوط احتسابی عمل، ذاتی دلچسپی اور سول سوسائٹی کی شراکت کے باعث پنجاب کا ایک بڑا حصہ 2015 میں پولیو سے محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ صحت کے صوبائی اداروں نے اپنی توجہ اب امیونائزیشن پروگرام کی توسیع کی جانب مرکوز کر دی ہے۔

یہ اقدام ماہ جنوری سے عمل میں آیا ہے۔ جس کے تحت پولیو کنٹرول روم میں جمع کردہ اعدادو شمار کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ 62 ہزار کے قریب ایسے بچے ہیں جنہوں نے پیدائش سے لیکر آج تک کبھی بھی حفاظتی ٹیکہ جات یا دیکر ویکسینیشن جیسے پولیو سے بچائو کے قطروں کی ایک بھی خوراک حاصل نہیں کی۔

تاہم عبدالستار جو کہ یونین کونسل 69 میں بطور ویکسینیٹر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ان بات پر یقین رکھتے ہیں بچوں مین معمول کی ویکسینیسن ہر سطح پر ممکن ہے

"آج ہم یہ تبدیلی محسوس کر سکتے ہیں۔ جلد ہی خاتون موبلائزرز کے بعد ہم کمیونٹی کے کوگوں کو بھی اس میں شامل کر رہے ہیں۔ یہ مرکز صحت زندگی کی ایک امید ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطر ے پلوانے اور دیگر ویکسینیشن دلانے کے لیے قطاروں میں انتظار کر رہے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ اس علاقے میں کوئی ایک بچہ بھی موذی امراض سے بچائو کے لیے حفاظتی ٹیکہ جات اور دیگر ویکسینیشن کی فراہمی سے محروم نہیں رہے گا"۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہے۔