صف اول کے پولیو ورکرز پاکستان کو اس موذی مرض سے نجات کے لیے پرعزم

 

ٹیکسلا، پنجاب، 17مئی 2016— سبز ڈوپٹہ اوڑھے زرد رنگ کے چمکیلے لباس میں ملبوس پانچ سالہ آسیہ فرش پر بیٹھے دوسرے بچو ں کے ہمراہ انگریزی زبان کے حروف تہجی اے، بی، سی، ڈی گنگنا رہے ہیں۔ یہ منظر ٹیکسلا کے ایک غیر گنجان آباد دیہاتی علاقے میں واقع ایک سکول کے ہیں جہاں ایک خاتون کمیونٹی موبلائزر جن کا نام فرزانہ ہے بچوں کو انگریزی زبان کی ابتدائی تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔ "میرا ابھی گھر جانے کو دل نہیں کرتا اس وقت تک کہ مجھے یہ معلوم پڑ جائے کہ سکول کا وقت ختم ہو گیا ہے"، اپنی انکھوں میں چمک اور چہرے پر معصومانہ مسکراہٹ لاتے ہوئے یہ بتانا ہے پانچ سالہ آسیہ کا۔

"میں فرزانی باجی (بڑی بہن) کی طرح ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں تاکہ دوسرے لوگوں کو صحت مند زندگی کی فراہمی میں انکی مدد کر سکوں" کمیونٹی موبلالائزر سے متاثر ہوتے ہوئے بچی بات کو دماغ میں بٹھائے بیٹھی تھی کہ کمیونٹی موبلائزر جیسے کے فرزانہ ایک ڈاکٹر ہوتی ہے جو کہ پولیو مہم کے دوران لوگوں کو اکھٹا کرتی ہیں اور انہیں قریبی ہسپتال، کلینک یا مرکز صحت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتی ہے تا کہ وہ اپنے بچوں کو حفاطتی ٹیکوں اور مہلک بیماریوں سے بچائو کی دیگر ویکسینیشن کی فراہمی یقینی بنا سکیں۔   فرزانہ نا صرف آسیہ کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے بلکہ وہ اس کے لیے کنبہ کے رکن کی حیثیت رکھتی ہے اس یقین کے ساتھ کہ فرزانہ اس کے لیے پولیو اور اس جیسے دیگر موذہ امراض سے نجات کا ذریعہ ہو سکتی ہے۔ کمیونٹی موبلائزر فرزانی علاقہ کی مقامی ہے اور آسیہ کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہمسائے میں رہائش پذیر ہے۔ ٹیکسلا کے اس گنجان آباد علاقے میں مقیم خاندانوں سے فرزانہ کے مسلسل اور مستحکم روابط کے باعث یہ لوگ ان سے صحت سے متعلق تمام مسائل پر رہنمائی حاصل کرنے میں ذرا بھی نہیں کتراتے ہیں۔

کمیونٹی موبلائزر علاقے کے لوگوں کو پولیو مہم کی تاریخوں سے آگاہ رکھتی ہیں، علاوہ ازیں وہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو طلاش کر کے انکے ناموں کی فہرست تیار کرتی ہیں تاکہ وہ تمام بچے جو کسی بھی وجہ سے پولیو سے بچائو کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ گئے ہوں ان تک رسائی حاصل کرکے انہیں حفاظتی ویکسینیشن فراہم کی جا سکے۔ کمیونٹی موبلائزر کے اس عمل کے باعث ان کا کمیونٹی کے ساتھ ایک مستحکم اعتماد کا رشتہ بندھ چکا ہے۔

"بسا اوقات جب میں اپنے گھر پر موجود ہوتی ہوں تو مجھے بچوں کے والدین کے اکثر کالز موصول ہوتی ہیں جو صحتی امور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے سے قبل مجھ سے ابتدائی رہنمائی حاصل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ میں انہیں جالالہ میں واقع قریبی مرکز صحت اور ڈسپنسری سے رجوع کا مشورہ دیتی ہوں۔ بعض اوقات میں انہیں اپنے بچوں کو قریبی ضلع راولپنڈی میں کسی اچھے ہسپتال سے رابطہ  کرنے کا مشورہ بھی دیتی ہوں ہاں صرف اس صورت میں جب ظاہری اثرات زیادہ تشویشناک ہوں"، یہ بتانا ہے فرزانہ کا۔

"یہ خالصتاَ اس اعتماد کا ثمر ہے جو میں نے برسوں انتہائی محنت اور انسانی احساس کے زمرے میں ان لوگوں کے دلوں میں قائم کیا ہے۔ میں ان نے اس پر خلوص رویے اور اعتماد کو کبھی نہیں کھونا چاہوں گی۔ لہذا مجھے دفتری اوقات کے بعد بھی ان لوگوں کے سوالات کے جوابات اور صحتی امور سے متعلق لاحق مسائل میں ان کی رہنمائی کرنے میں خوشی محسوس ہوتی ہے"۔  انہوں نے مزید بتایا۔

"ویکسینیشن سے محروم راہ جانے والے بچوں کے ناموں اور دیگر ضروری معلومات کے اندراج کے بعد میں بچوں کے سکولوں کا دورہ کرتی ہوں اور انکی مدد کرتی ہوں، یہ احساس کسی بھی طرح زندگی کے ایک اطمینان بخش تجر بے سے کم نہیں ہوتا۔ کمیونٹی میں موجود تمام بچوں کو میں اپنے بچےسمجھتی ہوں"۔ جذبات سے بھرپور مدہم آواز میں یہ کہنا تھا چار بچوں کی ماں فرزانہ کا۔

ویکسینیشن سے محروم رہ جانے والے بچوں تک رسائی اور موقع پر ان بچوں کو پولیو قطروں کی فراہمی، کمیونیٹیز میں شعور کی آگاہی بڑھانے کے لیے  ملک بھی میں 20،000 سے زائد صف اول کے ہیلتھ ورکرز پوری ایمانداری اور اپنے انسان دوست رویے سے فرائض کی انجام دہی میں دن رات کوشاں ہیں۔  ان انسان دوست کارکنوں کی ان تھک محنت اور جدہجہد کے باعث بہت سے بچے اپنی زندگیوں کی محفوظ دہلیز بور کر چکے ہیں اور پاکستان اس موذی مرض کے نجات کے برق رفتار کھوڑے پر سوار ہو چکا ہے اور وہ دن دور نہیں جب پاکستا ن پولیو سے پاک ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔

"جب میں نے بطور کمیونٹی موبلائزر کام کا آغاز کیا، والدین کی ایک بڑی تعداد جو کہ خیبر پختونخواہ سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے وہ پولیو اور اس سے بچائو کی حفاظتی ویکسین کے حوالے سے مختلف قسم کی غلط فہمیوں اور تحفظات کا شکار تھے۔ ان حالات میں ویکسینیشن سے محروم بچوں تک رسائی اور انہیں پولیو کے قطروں کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا تھا"۔ ان کا کہنا ہے۔

"آج تقریبا علاقے میں موجود ایسے تمام بچے خواہ وہ میرے گردو نواح تا سکولوں میں پائی جاتے ہوں، میرے پاس انکا مکمل ریکارڈ موجود ہے"، فرزانہ نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

حالیہ مہینوں میں، پاکستان میں جاری قومی پولیو پروگرام نے اپنی تمام تک توانائی اور جدوجہد پولیو وائرس کی بقایا رہ جانے والی ممکنہ آماجگائوں کی تلاش میں مرکوز کر لی ہے اور ساتھ ساتھ اس بات پر بھی خصؤصی ترجہ دی جا رہی ہے انتہائی نگہداشت کی آبادیوں میں رہائش پذیر بچوں میں بالخصؤص جو ویکسینیشن سے محروم رہ جاتے ہیں انہیں پولیو کے قطروں کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

دن رات کی انتھک جدوجہد کے باعث ناصرف پولیو وائرس کی ترسیل بلکہ بچوں میں پولیو کے مرض کی تشخیص میں بھی نمایاں کمی دیکھنے کو آ رہی ہے۔ سال 2015ء کے دوران پاکستان میں  سال 2014ء کی نسبت ٪82 کی کمی کے ساتھ پولیو کیسز کی تشخیص ہوئی ہے۔ سال 2015ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران ملک کے 13 اضلاع میں کل 23 کیسز کی تشخیص ہوئی۔ اسی طرح سال 2016ء میں ملک کے آٹھ مختلف اضلاع میں صرف 11 کیسز دیکھنے کو ملے ہیں یعنی سالانہ بنیادوں پر ٪65 فیصد کمی، جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے۔

تاہم، پولیو کا یہ موذی وائرس ابھی بھی جن تین آماجگاہوں میں اپنی بقا کے لیے جنگ لڑ رہا ہے ان میں خیبر پختونخواہ—ننگرہارکا سرحدی علاقہ، کراچی اور کوئٹہ—کندھار کا نواحی علاقہ۔  جن علاقوں تک اس وائرس کے پھیلائو کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ان میں صوبہ پنجاب کے اضلاع راوالپنڈی، لاہور، ملتان اور فیصل آباد، شمالی سندھ میں حیدرآباد اور سکھر وہ علاقے ہیں جہاں بچوں میں معمول کی پولیو ویکسینیشن کی عدم دستیابی کے باعث اس موذی وائرس کی افزائش نسل کے خدشات میں ممکنہ اضافے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

راوالپنڈی، فیصل آباد، لاہور اور ملتان میں حاصل کردہ ما حولیاتی نمونے گاہے بگاہے پولیو وائرس کے ممکنہ پھیلائو کے باری میں مثبت اشارے پیش کرتے ہیں۔ اور اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ان اضلاع کے وہ علاقے جہاں بیماریوں سے بچائو کی حفاطتی تدابیر کا فقدان ہے وہاں ہر ایک بچے کو پولیو سمیت دیگر بیماریوں سے بچائو کی حفاظتی ویکسین کی فراہمی کی اشد ضرورت ہے۔

پولیو کنٹرول روم کے فراہم کردہ اعدادوشمار سے واضع ہے کہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقہ فاٹا سے ہر ماہ 10،000کے قریب افراد راولپنڈی کا رخ کرتے ہیں۔ انتہائی احتیاط سے حاصل کردہ ان اعدادوشمار کے مطابق تقریباَ 250،000کے قریب مہاجرین ہر ماہ روزگار اور پناہ گاہوں کی تلاش میں پنجاب کے مختلف اضلاع کا رخ کرتے ہیں۔

صرف ٹیکسلا میں موجود پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد 91،000کے لگ بھگ ہے جن میں سے 31،000 کے قریب بچے ایسے ہیں جو نکاسی آب کے غیر معیاری انتظام، پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی اور تعلیمی مواقعوں کی قلت سے منسلک علاقوں میں اکثر و بیشتر سفر کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان بچوں کو پولیو وائرس کے ممکنہ حملے کے خدشات سے مبرا نہیں کیا جا سکتا۔

"پولیو پروگرام سے وابستہ صف اول کے کارکنان انتطامیہ کو متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی یا تسلسل کے ساتھ سفر کرنے والی آبادیوں کے بارے میں وقتاَ فوقتاَ آ گاہ کرتے رہتے ہیں۔ شعبہ صحت مسلسل اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی ایک بچہ بھی پولیو کے قطروں اور دیگر بیماریوں سے بچائو کی حفاظتی ویکسین سے محروم نہ رہ جائے"، راولپنڈی میں تعینات ضلعی ہیلتھ کمیونیکیشن سپورٹ آفیسر بشریٰ اجمل، جو کہ گذشتہ دو سالوں سے فرزانہ جیسی کئی دیگر صف اول کی پولیو ورکرز کو تربیت فراہم کر رہی ہیں۔

"فرزانہ اور انکے ہمراہ دیگر صف اول کے کارکنان کے تعاون کی وجہ سے راولپنڈی میں پولیو مہم کے دوران ہم تقریباَ تمام ایسے بچوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جو کسی وجہ سے پولیو سے بچائو کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ گئے تھے۔ ان تمام بچوں کو موقع پر پولیو کے قطرے بھی پلا دیے گئے ہیں"، بشریٰ کہتی ہیں۔

"پولیو پروگرام میں خواتین کی شمولیت نے ان تمام خواتین کو ہر سطح پر صحت اور خاندانی مسائل کے حوالے سے فیصلہ سازی کے حق کو تقویت بخشی ہے"۔ ضلعی ہیلتھ کمیونیکیشن سپورٹ آفیسر بتاتی ہیں۔

"میں سمجھتی ہوں کہ ایک بچہ کو کسی بھی وجہ سے پولیو ویکسین سے محروم رہ جاتا ہے وہ ایک خطرے کی علامت رہتا ہے اس لیے میری کوشش ہوتی ہے کہ میں ایسے تمام بچوں تک اپنی رسائی ممکن بنا سکوں تا کہ ان تمام بچوں کو جو کسی نہ کسی وجہ سے پولیو ویکسین کی فراہمی سے محروم رہ گئے تھے ان کے زندگیوں کو مستقبل کے لیے محفوظ بنا کر اس موذی وائرس کے پھیلائو کے امکانات کو کم سے کم کیا جا سکے"، کمیونٹی میں جانے کے لیے سکول سے نکلنے سے قبل فرزانہ نے اپنی گفتگو کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا۔