اسلام آباد، 20 مئی ، 2017- مئی کی ایک غیر معمولی طور پر گرم صبح، پولیو صحت محافظ ویکسینشن ٹیم اسلام آباد کے نواحی گاوں کورال میں گھروں کے دروازوں پر نشانات لگانے میں مصروف ہے۔ یہ نشانات صرف ان ٹیموں کی تکنیکی معاونت کا کام نہیں دیتے بلکہ ان کا سب سے اہم مقصد ان بچوں کا شمار ہے جنہیں اس گھر گھر جاری پولیو خاتمہ مہم کے دوران یا تو پولیو سے بچاو کے دو قطرے (او پی وی) پلاے جا چکے ہیں یا پھر پلائے جانے چاہیں۔ 

  چھبیس سالہ صائمہ کورال میں جاری اس مہم کے حقیقی مقصد کی عکاس ہے ۔کورال کی ان اونچی نیچی گلیوں میں محتاط قدم اٹھاتی صائمہ نہ صرف اسی علاقے کی رہائشی ہے بلکہ پولیو کا شکار ہونے کی وجہ سے اس بیماری کی اذیت سے بخوبی آشنا بھی ہے۔ "میں صوبہ پنجاب کے علاقے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیدا ہوئی تھی، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ مجھے کبھی بھی پولیو سے حفاظت کی دوا دی گئی ہو، تنیجہ یہ ہے کہ میں اب لنگڑاتی ہوں"

۔صائمہ نے دوا ٹھنڈئی رکھنے والے آئس پیک کو ویکسین کیرئر میں ڈالتے ہوئے جب یہ بتایا تو اسکی آواز میں موہوم سا دکھ صاف جھلک رہا تھا۔ "میں اس پولیو مہم میں تیسری بار کام کر رہی ہوں۔ میرا ایک تین سالہ بیٹا ہے ، اسے بھی اس مہم میں پولیو سے بچاو کے حفاظتی قطرے پلاے گئے ہیں، میں جب بھی ان گلیوں میں بچوں کو دوا پلانے نکلتی ہوں تو مجھے لگتا ہے میں کسی نہ کسی کا مستقبل بچا رہی ہوں" صائمہ نے کہا  

صائمہ کو دی گئی شیشی میں پولیو کی دوا کے دس قطرے ابھی باقی ہیں جسے اس نے نیلے رنگ کے مخصوص ڈبے میں اٹھا رکھا ہے۔ اس کا اگلا ہدف ایک ایسا گھر ہے جہاں پانچ سال سے کم عمر کے دو بچوں کی موجودگی متوقع ہے لیکن اندر جانے سے پہلے وہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ کمیونیکشن سپورٹ آفیسر شہریار ملک سے ملتی ہے جو اس وقت تک کی مہم کارکردگی سے مطمعین نطر آتے ہیں۔  

" اس بارہم پہلے سے کہیں زیادہ تیار ہیں۔ مہم کافی بہتر طریقےسے آگے بڑھ رہی ہے، ہم درپیش تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے نئی حکمت پر عمل پیرا ہیں جس میں ان خانداوں کو قائل کرنا بھی شامل ہے جو اپنے بچوں کو پولیو کی دوا پلانے سے ہچکچا رہے ہیں" شریار ملک نے ٹیلی شیٹ صائمہ کو وآپس کرتے ہوے کہا۔  

اسلام آبار کے اڈیشنل ڈپٹی کمشنر وقاص راشد، ضلعی سطح پرسرکاری طور پر مقرر کردہ پولیو کے فوکل پرسن ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ماضی میں مہم پر منفی طور پراثر انداز ہونے والے مسائل پراس بار قابو پا لیا جاے گا۔ 

"آبادیوں تک رسائی اور سیکیورٹی جیسے مسائل اس وقت پاکستان سے پولیو کے خاتمے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نہیں ہیں بلکہ اس وقت زور ایسی مہم چلانے پر ہے جس کے نتیجے میں کوئی بھی بچہ پولیو کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم نہ رہ جائے ۔غلط مہمیوں اور افواہوں پر قابو پانے کا مثبت نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ ایسے والدین کی تعداد اس وقت یہاں کم ترین سطح پر ہے جو اپنے بچوں کو پولیو کی دوا پلانے سے گریزاں تھے۔ کئی بار کسی خاندان کو یقین دلانے کے لیے کہ پولیو کے قطرے ان کے بچوں کے لیے ایک محفوظ دوا ہے، ہمیں کمیونیٹی کے نمائندوں اور علماء کی مدد بھی لینی پڑتی ہے۔ وقاص راشد نے جی 7 سیکٹر کی کچی بستی میں صحت محافظ کی ٹیم کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے بتایا  

"ہم جیسے جیسے تمام بچوں تک رسائی حاصل کرتے ہوے، ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں ویسے ہئ پولیو مہم پہلے سے زیادہ منتظم ، مرکوز اور بچوں کو پولیو سے بچاو کے حوالے سے زیادہ موثر ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے پہل مہم چلانا صرف ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کی ذمہ داری تھی، مگر اب معاونت کا یہ دائرہ کار مختلف محکموں سے ہوتا ہوا کمینوٹی کی سطح تک پہنچ چکا ہے"

اسلام آباد کی یہ پولیو مہم، پولیو خاتمے کے لیے بنائے گئے نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان 2017 کا حصہ ہے۔ جس میں گیارہ سو سے زائد ہیلتھ ورکرز اور رضاکاروں کو اس مہم کو چلانے کی تربیت دی گئی اسلام آباد میں پانچ سال سے کم عمرکے تیس ہزار بچوں کو مئی میں چلائی گئی اس نیشنل ایمیونائزیشن کمپین میں دوا پلائی گئی  

دو لاکھ سے زائد صحت محافظ کی اس مہم میں شمولیت اور پیشہ وارانہ لگن کروڑوں والدین کا اعتماد جیتنے میں معاون ثابت ہوئی ہے۔ اس امر کےنتیجےمیں پچھلے ایک سال کے دوران ایسے بچوں کی تعداد صرف 0:08 فی صد رہ گئی ہے جو پولیو سے بچاو کے حفاظتی قطرے نہیں پی پاتے تھے۔  

 گلی کے بالکل نکڑ پر محمد افضل کھڑا ہے جو اپنی پانچ سالہ بیٹی مائرہ اور تین سالہ بیٹے قاسم کو پولیو کے فکسڈ بوتھ پر دوا پلانے لایا ہے۔" ہم یہاں مہمان ہیں، ویسے ہم گجر خان ضلع راولپنڈی کے رہائشی ہیں ،جب میں نے گلی میں اس مہم کے پوسٹر دیکھے تو مجھے یاد آیا کہ بچوں کو تو دوا پلانے کا ٹائم ہو چکا ہے" افضل نے دوا پلاے جانے کے دواران اپنے بیٹے کو گود میں سنبھالتے ہوئے بتایا۔

پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو کا وائرس آج بھی موجود ہے، لیکن پاکستان اس مرض سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا تہیہ کر چکا ہے لیکن یہ کوئی معمولی کام نہیں۔ نیشنل ایمرجنسی سینٹرز کا قیام جہاں پولیو خاتمے کے لیے حکومتی پارٹنرز سرکاری قیادت میں کام کررہے ہیں ، ایک واحد راستہ ہے جس کے ذریعے پولیو وائرس کی آخری آماجگاہوں تک پہنچ اور ہر بچے تک پولیو دوا کی رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔  

 اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پولیو وائرس کی مہلک گردش اس وقت کم پاکستان میں مشاہدہ کی جانے والی کم ترین سطح پر ہے۔ یہ بہتری پولیو ختم کرنے کے حکومتی عزم ،پولیو مہم کی موثر کارکردگی اور کمیونٹی کی سطح ۔ پر اس کی وسیع تر پزیرائی کا تنیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیو وائرس کا شکا ر ہونے والے بچوں کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ 2014 میں متاثرہ بچوں کی تعداد 306 تھی، 2015 میں 54 جبکہ 2016 میں یہ تعداد کم ہو کر 20 متاثرہ کیسسز تک آ گئی۔ جب کہ رواں سال کے دوران اب تک صرف دو پولیو کیسسز سامنے آئے ہیں۔ لیکن پولیو کے خلاف جنگ میں ایک بچے کا بھی اس وائرس سے متاثر ہونا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس مہم کے حوالے سے ملکی قیادت سے لے کر ہیلتھ ورکرز تک سبھی متحرک نظر آتے ہیں۔

 اسی سب کے دوران صائمہ اور بہت سے صحت محافظ گلیوں میں گھومتے، دروازوں پر دستک دیتے، صبح سے شام تک بچوں کو پولیو سے حفاظت کے قطرے پلاتے ہیں کہ کہیں کوئی ایک بچہ بھی اس دوا سے محروم نہ رہ جائے۔