تحریر: گیت

راولپنڈی- 11 ستمبر 2017: راولپنڈی کے چند خانہ بدوش خیموں کے درمیان بچاس سالہ سکینہ اپنے نواسے کو اٹھائے ٹہل رہی ہے۔ نومولود زین کی عمر محض چار دن ہے اور آج اسے پولیو کے حفاظتی قطروں کی پہلی خواراک پلائے جانے والی ہے۔

 سکینہ کا تعلق جنوبی پنچاب کے شہر ملتان سے ہے وہ اپنی بیٹی ،داماد اور نواسے زین کے ساتھ یونین کونسل کینٹ 10 رالپنڈی بطور مہمان آئی ہے جہاں اس کی میزبان آمنہ بی بی مقیم ہے ۔آمنہ بی بی کے خاندان کا شمار بھی عارضی طور پر مقیم افراد میں ہوتا ہے جنہیں انگریزی میں ایچ آر ایم پی کہا جاتا ہے۔ سکینہ بی بی راولپنڈی ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے آئی ہے۔

راولپنڈی کو اگر ایک جنکشن کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ یہ ایسی گزرگاہ ہے جہاں مخلتف صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کسی نہ کسی وجہ آتے جاتے رہتے ہیں ۔ کسی کو خاندانی تقریب میں شرکت کرنی ہے تو کسی کو مذہبی تہوار کا حصہ بننا ہے۔ ان حالات میں خدشہ یہ ہوتا ہے کہ کہیں سفر کرنے والے بچے پولیوسے حفاظتی دوا سے محروم نہ رہ جائیں ۔ 

اگرچہ پاکستان پولیو سے مکمل چھٹکارا پانے میں فی الحال کامیاب نہیں ہو پایا پر حالات پہلے کے مقابلے میں بلاشہ طور پر بہتر ہیں۔ پولیو وائرس کے پھلؤو پر 2015 میں جو قابو پایا گیا تھا وہ ہر سال پولیو کیسز میں کمی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ 2014 میں یہ پولیو کیسز 306 تھے جو کہ 2015 میں کم ہو کر 54 اور 2016 ممیں 20 رہ گئے۔ اگر 2017 کا موازنہ 2016 سے کیا جائے تو پچھلے سال اس وقت م تک 16 کیسز سامنے آ چکے تھے جبکہ اب تک ان کی تعداد صرف پانچ ہے۔ ایک طرف تو پولیو وائرس کے پھیلاؤ میں کمی آئی ہے پر دوسری طرف نقل مکانی کرنے والے خاندان آج بھی اس بیماری کے خطرے سے نہ صرف دوچار ہیں بلکہ ان خاندانوں کے بچے اس وائرس کے پھیلاؤکی وجہ بھی بنتے ہیں

" ننھا زین بطور مہمان یو سی 10 کینٹ میں مقیم ہے جس کا شمار راولپنڈی کی ان 192 یوسیز میں ہوتا ہےجہاں پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ صحت محافظ ٹیم اپنے کندھوں پر نیلے ڈبے ٹانگے اس بستی میں پولیو سکے حفاظتی قطرئۓ پلانے میں مشغول ہے کہ کہیں کوئی بچہ اس دوا سے محروم نہ رہ جائے ۔ اس دوران جب کہ زین کو پولیو کے دو قطرے پلائے جا رہیں ہیں آمنہ بی بی بتاتی ہیں " میرئے سات پوتے پوتیاں ہیں اور پولیو کے قطرئے پلانے آج تک کہیں نہیں جانا پڑا، یہ ٹیمیں ہر بار گھر آکر دوا پلاتی ہیں "

"عارضی طور پر مکین اور ہجرتی آباد کاروں تک دوا کی رسائی عام عوام کے مقابلے میں کم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ عام آبادی تک پولیو وائرس کی رسد کا سبب بنتے ہیں جس کہ وجہ سے مجموعی طور پر آبادی میں پولیو کے وائرس کے خلاف مدافعت میں کمی ہوتی ہے " یہ بات ڈسٹرکت ہیلتھ آفیسر راولپنڈی ڈاکٹر عبدالجبار نے اکتوبر کے آخر میں ہونے والی پولیو مہم کے کاغذات کو سمیٹتے ہوئے بتائی۔

"ہم اپنے علاقے کے بچوں میں پولیو مدافعت کو بہتر بنانے کے لیے یکسوئی سے کام کررہے تھے کہ 2016 میں ہم نے محسوس کیا کہ خاطر خواہ مثبت نتائج برآمد ہونے کی بجائے پولیو وائرس کہیں نہ کہیں سے چھپ کر وار کر رہا ہے" ڈاکٹر عبدالجبار نے کہا۔

""ہم نے سوچا کہ اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ نقل مکانی کرتی آبادی کے اس معاملے کو باریکی سے سمجھا جائے ، پولیو وائرس کا منبہ قرار دئیےجانے والے علاقوں پر خاص کر پاک افغان بارڈر کے ارد گرد نظر رکھنے کے لیے علاقائی صحت محافظ اور مخصوس ٹرانزٹ ٹیمز پر انحصار بڑھایا جائے " یہ بات ڈسٹرکٹ ہیلتھ کمیونیکیشن سپورٹ آفیسر بشریٰ اجمل نے بتائی۔

پاکستان سے افغانستان اور وہاں سے ادھر آنے والے بچوں تک رسائی کے لیے سبسے اہم ان علاقوں کے بارے میں تفصیلی معلومات ک اکٹھا کرنا ہوتاہے اس کے علاوہ مقامی افراد کا تعاون بھی اس کام کے لیے بہت اہم ہے" بشریٰ اجمل نے بتایا۔  

عارضی نقل مکانی کرنے اور ہجرت کرجانے والے بچوں تک پولیو سے بچاؤ کے قطروں کی رسائی یقنی بننانے کے لیے بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں پر مخصوص ٹیموں کو تعینات کیا گیا اس کے علاوہ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے خاندانوں سے لے کہ مزدور بستیوں تک اور کھیت کھلیانوں میں جکام کرتے افراد کے بچوں تک بھی اس دوا کی فراہمی کو یقنی بنایا جا رہا ہے۔

 "ایسے بچوں تک پولیو سے بچاؤ کی دوا پہنچانا آسان کام نہیں ہے جو سفر میں ہوں یا کچھ عرصے کے لیے اپنے رشتہ داروں کے ہاں مقیم ہوں ، زیادہ مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ عارضی قیام کتنے دن کا ہے۔ اس کے لیے چھوٹی چھوٹی چیزوں کی منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے تا کہ ان بچوں کوپو لیو کی دوا دینے کا عمل بر وقت مکمل ہو سکے"۔ یونین کونسل کمیونکیشن آفیسر سدرہ نعمان نے بتایا۔

"اس کام کو مکمل کرنے کا زریں اصول یہی ہے کہ ہر بچے کا نام کسی نہ کسی صحت محافظ کی فہرست پر ہو جس تک پہنچنا اس کی ذمہ داری ہو۔ عارضی طور پر مقیم ان آبادکاروں تک دوا کی رسائی یقینی بنانے کا ایک موثر طریقہ یہ بھی ہے کہ علاقے کے اہم اور با اثر افراد کو اس عمل کاحصہ بنایا جائے" سدرہ نے کہا۔

 نقل مکانی کرنے والے بچوں کے ذریعے پولیو وائرس پھیلنے کی روک تھام کا بندوبست انتہائی ضروری ہے جس کے لیے بین الاقوامی و بین الاالصوبائی سرحدوں اور پولیو وائرس کا گڑھ قرار دئیے جانے والے علاقوں میں پولیو قطروں کی دستیابی کا بندوبست کرنا شامل ہے۔ اس کام کے لیے ان گزرگاہوں پر پولیو کی دوا دینے والی ٹیموں کو مقرر کیا جاتا ہے۔ باوجود تمام تر کوششوں کے ہزاروں اور لاکھوں بچوں کی سالانہ آمد ورفت پر نظر رکھنا اور ہر ایک تک اس دوا کا مقرر کردہ وقفوں میں پہنچانا ممکن نہیں ۔ اس کا لا محالہ اثر بچوں میں اس بیماری کے خلاف قوت مدافعت پر پڑتا ہے۔

 "ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں نقل و حرکت کرتے ان بچوں کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلانا پنجاب میں پولیو امخالف مہم کا کلیدی جز ہے۔ ان بچوں کی آمد و رفعت کا درست ریکارڈ رکھنے کے لیے بلو کارڈز (نیلے رنگ کے کارڈز) کا استعمال متعارف کروایا گیا ہے۔ ان کارڈز پر اس بچے کا نام، عمر اور جنس درج ہوتی ہے ۔ اس کارڈ پر اہم گزر گاہوں پر قائم کردہ پولیو حفاظتی مراکز میں بچے کو پلائی گئی دوا کی تاریخ بھی لکھی ہوتی ہے" ڈاکٹر عبدالجبار نے بتایا

 آمد و رفعت کا سلسلہ تہواروں اور عام تعطیلات کے دوران بہت بڑھ جاتا ہے جس کے مد نظر ان گزرگاہوں اور مقرر کردہ پوائنٹس پر صحت محافظ ٹیموں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ چلتی پھرتی ان ٹیموں کی بدولت ان بچوں تک پولیو کی دوا پہنچانے میں کامیابی مل سکی ہے جن کا گزر نجی کلینکس، اسپتالوں، مزاروں ، پیروں فقیروں کے ڈیروں اور بہت سے دیگر عوامی مراکز سے ہوتا رہتا ہے۔

 سال 2017۔2016 کے دوران کم آمد ور فت کے زمانے میں 15 ملین بچوں کو مقرر کردہ مراکز پر پولیو کے قطرے پلائے گئے۔ اس کے علاوہ پاک افغان سرحد پر 5ملین بچوں کو پولیوکی حفاظتی دوا دی گئی۔

اسی مہم کے نتیجے میں صحت محافظ ٹیمیں زین اور اس جیسے بہت سے عارضی مکین بچوں کا ریکارڈ رکھنے میں کامیاب ہوچکی ہیں ۔ ۔ڈیٹا جمع کرنا اپنے آپ میں ایک اہم اور حساس کام ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ کہیں کوئی ایک بچہ بھی اس دوا سے محروم نہ رہ جائے۔